مختلف ادوار میں مختلف علاقوں میں بہت سے بدبختوں نے نبوت کے جھوٹے
دعوے کیے، لیکن مسلمانوں کی غیرت نے ایک لمحے کے لیے بھی ان کے وجود
کو اس دھرتی پر گوارا نہ کیا ۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد ہندوستان پر
انگریزوں کو غاصبانہ قبضہ جمانے کے بعد ضرورت تھی کہ وہ اپنے قدم مستحکم
کرتا او راپنے تسلط کو طول دیتا، جس کے لیے اسے مسلمانوں کو غلام بنانے کی
ضرورت تھی، لیکن انگریز پوری کوشش کے باوجود مسلمانوں کو غلام نہ بنا
سکا، بڑی سوچ وبچار کے بعد انگریز کے سامنے یہ بات آئی کہ مسلمانوں کو
غلام بنانے میں دو بڑی رکاوٹیں درپیش ہیں ، پہلی مسلمانوں کی اپنے نبی صلی
الله علیہ وسلم سے محبت اور دوسری رکاوٹ مسلمانوں کا جذبہ جہاد ہے۔ انگریز
کو ضرورت تھی کہ جہاد کے فریضہ کو منسوخ قرار دیا جائے، تاکہ مسلمانوں کے
دلوں سے جذبہ جہاد ختم ہو جائے جہاد ایک فریضہ ربانی ہے ، چناں چہ اس کام
کے لیے انگریز کی نظر انتخاب اس انگریز وفا دار خاندان کے شخص مرزا قادیانی
پر پڑی او راس خدمت کے لیے مرزا غلام قادیانی کاانتخاب کیا گیا۔ انگریز نے
اپنے اس انگریزی نبی کو ایسی ہی ترقی دی جیسے وہ اپنے دنیاوی ملازمین کو
ترقی دیا کرتا تھا، چناں چہ پہلے پہلے تو اسے مبلغ اسلام اور مناظر اسلام کے
طور پر متعارف کروایا گیا، پھر اس نے عالم، پھر مصنف، پھر مجدد، مہدی مثیل
مسیح، مسیح موعود غیر تشریعی نبی، تشریعی نبی حتی کہ جسارت میں اس قدر
بڑھا کہ دعویٰ کیا کہ وہ خود محمد رسول الله ہے، جسے اشاعت اسلام کے لیے
دوبارہ دنیا میں بھیجا گیا ہے ۔اس طرح سے لوگوں کا تعلق مکہ مدینہ سے کٹوا
کر قادیان کی طرف جوڑنے لگا اور چوں کہ مسیحیت کا دعویٰ بھی تھا اور حدیث
کے مطابق حضرت مسیح کے زمانے میں کافر باقی نہ بچنے کی وجہ سے جہاد
ختم ہو جائے گا اس بدبخت نے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے تنسیخ جہاد اور حرمت
جہاد کا اعلان کر دیا اور بڑے فخر سے اپنی کتب میں ذکرکیا کہ میں نے حرمت
جہاد کے سلسلہ میں اس قدر کتب او ررسائل تحریر کیے ہیں کہ : ” ان سے پچاس الماریاں بھر سکتی ہیں۔